“فیض نستعلیق” کی انقلاب آفریں آمد
اُردو سافٹ وئیر اِن پیج المکتب اور الناشر کے ساتھ علّامہ اقبالؔ کا پسندیدہ خط ’نستعلیق لاہوری‘ استعمال کے لئے تیّار
یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ خط نستعلیق اُردو زبان کا چہرہ ہے۔ اُردو والوں کو نستعلیق کے علاوہ کسی بھی عکسِ خط میں لکھی ہوئی تحریر کبھی پسند نہیں آئی۔ اور اس بات کو بھی قبول کر لینے میں کوئی عار نہیں محسوس کیا جانا چاہئے کہ کمپیوٹر کے اس عہد میں نستعلیق کو جو رواج حاصل ہوا ہے اس میں ہندستانی سافٹ ویئر ’ان پیج‘کا کردار بہت نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ طباعت کی دنیا میں نئے نئے چیلنجز، خاص طور پر اُردو زبان سے متعلق، سامنے آتے رہے ہیں، بہتر سے بہترین کی طرف نکل جانے کی اس دوڑ میں دوسری زبانیں تو تکنیک کی محتاج نہیں ہوتیں مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ اُردو اور اُردو والوں تک نئی تکنیک دیر سے ہی پہنچتی ہے۔ مگر اس بار ایکسس سافٹ میڈیا پرائیویٹ لمٹیڈ نے جو کوشش کی ہے اس نے اُردو زبان اور اس سے وابستہ تکنیک، سافٹ ویئر ، فونٹس، پرنٹنگ اور پبلشنگ، کو دور حاضر کی دوسری تکنیکوں کے مقابل کھڑا کردیا ہے۔
کمپیوٹر پر طباعتی مراحل کا سفر محض تیس برس پرانا ہے۔ اُردو طباعتی دُنیا کا سب سے بڑا مسئلہ خط نستعلیق کی دستیابی رہا ہے۔مونوٹائپ جیسی فونٹ بنانے والی دُنیا کی سب سے بڑی کمپنی نے ، جو دُنیا کی بڑی بڑی سافٹ ویئرکمپنیوں کو فونٹس فراہم کرتی ہے، بھی کافی وقت اور اِس سے بھی زیادہ رقم صرف کرکے نستعلیق بنانے کا بیڑہ اٹھا یا مگر وہ بھی ‘نوری نستعلیق ’سے آگے نہیں بڑھ پائے ۔ انہوں نے نستعلیق فونٹ تو بنالیا مگر وہ اسے ‘پُر’ کشش نہیں بنا پائے جو خطاط کے نزدیک کسی خط کو وقار اور حُسن بخشتا ہے۔ کشیدہ کی سہولت سے عاری اس فونٹ کو ایکسس نے ہی‘ کشش’ عطا کی۔ آج اِس خط کو رواج کو میں آئے بھی یوں لگتا ہے عرصہ بیت چکا ہے۔
جب خط نستعلیق کی تیسری اور آخری نسل لاہوری کو کمپیوٹر کے قالب میں ڈھالنے کا خیال آیاتو وہ دشواریاں بھی پیش نظر تھیں جو کسی بھی نستعلیق خط کو بنانے میں پیش آسکتی تھیں۔پھر بھی ایکسس نے اپنی ٹیم کے ساتھ اسے تیار کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ کہتے ہیں نہ کہ جہاں کئی بار سرمایہ اور سہولتیں کام نہیں آتیں وہاں جذبہ کام کر جاتا ہے۔ ایکسس نے بھی اپنی چار برس کی شبانہ روز محنت کے بعد یہ کارہائے نمایاں انجام دیا۔
یہ خالصتاً ایک ہندوستانی فونٹ ہے۔ اس کا ایک ایک حرف ، ایک ایک نقطہ اور ہر ایک لگیچر ہندوستانی سرزمین پر ، ہندوستانیوں کے ذریعے لکھا گیا۔ جو کام ممالک ، ریاستیں ، بڑی بڑی کمپنیاں نہیں کر سکیں ، جس کام کو اُردو اداروں نے کبھی چھونے کی کوشش نہیں کی اسے ایکسس سافٹ میڈیا پرائیویٹ لمٹیڈ نے چار برس کی محنت کے بعد دُنیا کے سامنے پیش کردیا۔
نستعلیق اور لاہوری نستعلیق
فنِ خطاطی ہر دور میں اپنی عالمگیر شہرت کی بنا پر مقبولِ عام رہا ہے ۔ اس فن کی رعنائیاں قرطاس سے لیکر محلات، مساجد اور مقابر کے خوبصورت محرابوں میں ہر جگہ اپنے حسن وزیبائی کی کائنات سجائے ہوئے ہیں ۔ اس کے اعلیٰ نمونے قرآن پاک کے قدیم نسخوں، قلمی تحریروں ، تاریخی عمارتوں اور اپنے دور کے اعلیٰ ترین خطاطوں کی نایاب وصلیوں میں آج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو اپنے حُسن کی جھلک دکھا کر آج بھی توجہ کھینچ لیتے ہیں۔ خط نستعلیق آج کے دور میں کافی مقبولیت حاصل کرچکا ہے ۔ در اصل یہ ایرانی خط ہے جو ’نسخ ‘اور’ تعلیق ‘نامی دو خطوں سے مل کر بنا ہے ۔ اس خط کو بعد میں مختلف مراحل پر الگ الگ اساتذہ نے اپنے اپنے ڈھنگ اور اپنے طرز پر لکھنے کی سعی کی جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے اور اس کے ساتھ ہی اس خط میں نکھار پیدا ہوتا گیا۔ نستعلیق کو جدید طریقے سے سجانے سنوارنے کا سہرا اُستاد الخطاطان منشی عبد المجید پرویں رقم لاہوری کے سرجاتا ہے جنہوں نے آج سے محض پون صدی قبل اصل ایرانی طرز ِنستعلیق کو لے کراس میں کچھ تصریف کی، تمام حروف کو دلکش انداز میں لکھ کر اس کے دائروں کو بیضاوی شکل دے کر ان میں مزید نزاکت پیدا کی ۔یہ دائرے کچھ سمٹے ہوئے لہر دار نزاکت لئے ہوئے مخروطی بنائے گئے ہیں۔ گویا لگتا ہے جیسے کسی مصور نے اپنے موءِ قلم سے ایک حسین مجسمہ کو بنا کر اس میں جان ڈال دی ہے۔ اسے ابتدا میں ’’طرزِ پروینی‘‘ کے نام سے شہرت ملی لیکن بعد میں یہی نستعلیق خط لاہوریؔ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ ان کے اس طرزِ جدید نے ایسی شہرت و مقبولیت پائی کہ علامہ اقبال نے اپنی کتابوں کی اشاعت کے لیے اسی خط کو پسند فرمایا۔ اپنی نگرانی میں انھوں نے منشی پرویں رقم سے پوری کتابت بااہتمام کروائی۔ انھیں محفوظ رکھا اور اس کی پلیٹوں کی بھی اپنی پوری زندگی تک حفاظت کی۔ علامہ اقبال نے منشی پرویں رقم کو خراجِ تحسین ان الفاظ میں پیش کیا کہ ’’پرویں رقم اگر خطاطی چھوڑ دیں گے تو میں بھی شاعری ترک کردوں گا‘‘۔ بعد میں منشی پرویں رقم کے دیگر تلامذہ نے اس خط میں جہاں جہاں اورجب ضرورت محسوس کی تبدیلیاں کرتے گئے ۔ ان میں مشہور خطاط تاج الدین زرّیں رقم لاہوری نے بہت ہی محنت و مشقت کے بعد اس خط کو تراش خراش کر اور بھی خوبصورت اور دلکش بنا دیا۔یہی وجہ ہے کہ خطِ نستعلیق کی دیگر صورتوں کی بہ نسبت لاہوری طرز سب سے زیادہ نازک کہلایا۔ دوسرے طرز میں حروف کی معمول سے زیادہ پیمائشیں بھی قابلِ قبول و قابلِ قدر ہو جاتی ہیں لیکن طرزِ لاہوری کی نزاکت ایسی ہے کہ قواعد کی کسی بھی قسم کی معمول سے زیادہ تبدیلی اس میں بدصورتی کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ بات برسرِ تذکرہ غیر ضروری نہیں معلوم ہوتی کہ تاج الدین زرّیں رقم کو ’’خطاط الملک‘‘ اور ’’خطاطِ مشرق‘‘ کا خطاب اور حکومتِ پاکستان کا گولڈ میڈل بھی عطا کیا گیا تھا۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب ان کا انتقال ہوا (۱۳؍جون ۱۹۵۵ء) تو پورے ملک میں سوگواری کا اظہار کیا گیا اور غالباً یہ واحد خوشنویس ہیں کہ جن کے انتقال پر ملک بھر (پاکستان) میں تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا۔
فیض مجدّد لاہوری:
اسی نازک طرزِ خط کے امین اور تاج الدین زرّیں رقم کے ہمعصر و شاگرد تھے محترم فیض مجدّد لاہوری صاحب جو ہندوستان کی آزادی سے قبل اور بعد میں بھی اپنی فنی صلاحیتوں کے سبب ممبئی کے حلقۂ فنکاران میں ’’فیض کاتب و آرٹسٹ‘‘ کے نام سے مشہور رہے۔ فیض مجدّد کشمیر کے ایک راج گھرانے ’’پال‘‘ کے چشم و چراغ تھے ۔ لاہور آپ کی جائے پیدائش اور وطنِ مالوف تھا اسی نسبت سے لاہوری کہلائے۔
فیض مجدّد لاہوری منشی عبد المجید پرویں رقم لاہوری سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ انھیں کو اپنا اُستاد مانتے تھے۔ بعد میں انھوں نے باقاعدہ تاج الدین زرّیں رقم لاہوری سے اصلاح لی اور خطِ لاہوری کے ماہر خطاطوں میں شمار کیے گئے۔ ان کے نام کی دھوم لاہور سے ممبئی تک ہونے لگی ۔
۱۹۲۸ء میں فیض صاحب ممبئی تشریف لائے۔ یہاں آکر انھوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ممبئی والوں نے انھیں اس قدر محبت دی کہ وہ یہیں کے ہورہے اور آخری دم تک بمبئی میں ہی بسے رہے ۔ فیض صاحب کے لکھنے کا اپنا الگ اسٹائل ہے۔ انھوں نے خط لاہوری کے بیضوی دائروں اور دیگر حروف کو مزید لچکدار اور ان کے نازک جوڑوں کو آرٹسٹک انداز میں بنا کر ان میں نفاست اور دلکشی پیدا کردی ۔ فیض مجدد لاہوری کا یہ انفرادی طرزِ تحریر اس قدر مقبول عام ہوا کہ ہر صاحب کتاب کی خواہش ہوتی کہ وہ فیض صاحب سے ہی اپنی کتاب کا سرورق لکھوائے ۔ فیض صاحب ایک اعلیٰ خطاط ہونے کے ساتھ ساتھ مانے ہوئے مصور بھی تھے ۔ فیض مجدّد کی طبیعت میں نزاکت تھی، نفاست تھی، وہ حروف بناتے وقت ان میں مصوری کا حسن بھی بھر دیتے تھے چنانچہ انھوں نے طرز لاہوری میں مصوری کے رموز ونکات کا بھی لحاظ شامل کر دیا۔ جو کوئی ایک بار ان کے لکھے ہوئے طغرے یا ٹائٹل کو دیکھتااسے بار بار دیکھنے کی خواہش پیدا ہوتی تھی اور ایسا لگتا گویا کہ کسی حسین مجسم کو دیکھ رہے ہیں ۔
مرقعِ فیض:
۱۹۸۲ میں فیض مجدد لاہوری کے شاگرد اسلم کرتپوری نے لاہوری خطاطی کے قواعد و ضوابط پر مبنی کتاب ’’مرقع فیض‘‘ شائع کی جس میں وہ تمام تختیاں شامل تھیں جن پر فیض صاحب نے کتابت کے قاعدے تحریر کئے تھے۔ اس کتاب میں خطاطی کے وہ طریقے بھی سکھائے گئے تھے جو عام خطاط جانے انجانے میں نظر انداز کردیا کرتے تھے ۔ ہندوستان میں لاہوری طرز تحریرکی یہ واحد کتاب ہے جس میں فیض صاحب کے لکھے ہوئے مختلف کتابوں اور اخبارات کے ٹائٹل اور ان کی وہ نایاب وصلیاں شامل ہیں جو فنی اعتبار سے ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہیں اور نئے لکھنے والوں کے لئے مددگار ثابت ہوئی ہیں ۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ایکسس نے فیض لاہوری نستعلیق کی تشکیل اسی کتاب میں موجود نمونوں کی ٹریسنگ کی مدد سے کی ہے ۔ فیض مجدد کے فن کے اعتراف اور احترام میں ہی اس فونٹ کو ان سے (فیض نستعلیق) منسوب کیا گیا ہے۔
ایکسس سافٹ میڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ کے روح رواں سید منظر حسن بلا جھجھک اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اگر فیض صاحب کی یہ کتاب نہ ہوتی تو اس فونٹ کو کمپیوٹر کے قالب میں ڈھال پانا ممکن نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں ’’ہم نے یہ طے تو کرلیا کہ ہمیں نستعلیق کی اس جدید ترین شکل کو ایک مکمل اور قابل استعمال فونٹ میں تبدیل کرنا ہے مگر اس کا علم قطعی نہیں تھا کہ وہ ریسرچ کے مراحل سے نکل کر جب کتابت کے مراحل میں داخل ہوگا تو اتنی دقتیں پیش آئیں گی۔ ‘‘ یہ شہر خط لاہوری کے لکھنے سے خالی تھا۔ ریسرچ کے بعد جب کام تقریبا ’دفن‘ ہو چکا تھا تو ’مرقع فیض ‘ نے راہ سجھائی۔
کمپیوٹر اور خط لاہوری کی ضرورت:
جس طرح کسی زبان کی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس میں جدید علوم نہ لکھے جائیں، عین اسی طرح اگر تکنیک کے معاملے میں بھی کسی ایک شکل یا کسی ایک فونٹ پر اکتفا کر لیا جائے تو زبان اور تکنیک پر جمود کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ایک عرصے سے اس بات کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی تھی کہ خط نستعلیق کا کوئی اور بھی ، اور وہ بھی بہتر (اس بات پر بحث کی جا سکتی ہے) متبادل پیش کیا جا ئے۔
خط لاہوری نستعلیق زبان کو نہ مرنے دینے ، زبان کو جدید تکنیک سے ہم آہنگ کرنے اور اسے دوسری تکنیکوں کے مقابل پوری قد کاٹھی کے ساتھ کھڑا کرنے کی کوشش و کاوش کا نتیجہ ہے۔ ہر چند کہ نوری نستعلیق بذریعہ ان پیج ہی بازار میں آیا اور’ چشم ‘زد عام ہوا ، مگر اس میں جہاں اور خامیاں، جو اس کے استعمال کے دوران ان برسوں میں سامنے آئیں، تھیں وہیں اس میں کشش کی عدم دستیابی نے اسے استعمال کرنے والے فنکاروں کو بھی بڑا مایوس کیا۔
یہ اور کچھ تکنیکی پچھڑا پن فیض نستعلیق کے وجود میں آنے کی وجہ بنے۔ فیض نستعلیق کو قابل استعمال بنانے کے لئے ان پیج سے بہتر کوئی اور پلیٹ فارم نہیں تھا۔ ایک تو یہ آزمودہ تھا اور دوسرے یہ کہ اس کی مدد سے خط لاہوری کو رواج میں زیادہ مشکلات پیش آنے کا امکان نہیں تھا۔
سید منظر نے بتایا ’’اس نئے خط کو ہم ایک نئے پروڈکٹ کے طور پر ہی سامنے لانا چاہتے تھے جس میں جدید تکنیک کے ساتھ کام کرنے کی سہولت ہو۔ ہم نے فیض نستعلیق کے لئے ان پیج المکتب اور الناشر نام تجویز کیا ۔یہ سافٹ ویئر جتنے اخبارات و رسائل اور پیشہ ورانہ کاموں کے لئے مفید ہیں اس کی اتنی ہی افادیت مدارس اور دینی کتب شائع کرنے والوں کے لئے بھی ہے کیونکہ اس میں نستعلیق کے علاوہ عربی فونٹس (منظر ہند۔پاک نسخ، منظرانڈین نسخ، منظر عربک نسخ، منظر فاطمی نسخ اور مرتضی نسخ) بھی شامل ہیں۔ ہم نے ان کی قیمتیں بھی بے حد کم کر دی ہیں۔‘‘
اسے نئی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے Unicode پلیٹ فارم کی مدد لی گئی ، اسے اس قابل بنایا گیا کہ ان فونٹس کو صرف ان پیج میں ہی نہیں بلکہ دور جدید کے تقریبا ہر سافٹ ویئر میں استعمال کیا جا سکے۔
پروجیکٹ کا پس منظر:
ایکسِس سافٹ میڈیا نے اردو کے حروف و الفاظ پر تحقیق شروع کی اور تقریباً دوبرس کی شبانہ روز محنت کے نتیجہ میں تمام لازمی حروف، ان کی جدا جدا مرکباتی شکلیں اور ان کی تعداد، ماقبل و مابعد کے حروف سے اتصال کا انداز و انفرادیت، نقطوں اور اعراب کی غیرپیچیدہ ترسیم کا تجزیہ و تحقیق کی۔یہ وہ مرحلہ تھا جب اس بات کا احساس شدت اختیار کر گیا کہ شاید اس کام کی تکمیل نہ ہوسکے۔ شہر میں ایسے کم ہی لوگ تھے جنہیں لاہوری پر مہارت حاصل تھی اور جو فنکار موجود تھے وہ بھی ’مشق سخن‘ کب کی چھوڑ چکے تھے۔
اسلم کرتپوری سے،جو فیض صاحب کے واحد شاگرد ہیں، ہونے والی ایک ملاقات میں انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ کیوں نہ ’مرقع فیض‘ سے مدد لی جائے جس میں فیض صاحب کے اصلی خط کے نمونے انہی کی تحریر میں موجود ہیں۔ اس کے بعد مرقع فیض کی مدد سے ڈاکٹر ریحان انصاری نے، جو فیض مجدد لاہوری سے ان کے آخری ایام میں اصلاح بھی لے چکے ہیں ، حروف کی ٹریسنگ کی اور اسلم کرتپوری نے ان خطوط کو سوپر وائز کیا۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں اس بات کا پورا خیال رکھا کہ اس طرز لاہوری میں فیض صاحب کی جھلک من و عن برقرار رہے ۔
کوئی فن اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس کی ستائش نہ کی جائے ، اسے عوام کے ذریعے شرف قبولیت حاصل نہ ہو۔ سید منظر پُراُمید ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ’’ہمارا جو کام تھا، ہم نے کر دیا۔ اب یہ آپ کے حوالے ہے۔‘‘